Saturday, 10 January 2015

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی

Dr. Shahab Zafar Azmi

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی بھارت میں اردو فکشن کی تنقید کا ایک سنجیدہ اور معتبر نام ہے۔ان کی پیدائش یکم اپریل ۱۹۷۲ء کو گیا (بہار) میں ایک عالم دین مولانا عبدالبر اعظمی کے گھر میں ہوئی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم والد گرامی سے ہی حاصل کی ،اس کے بعد مگدھ یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔جون ۲۰۰۳ء میں ان کا تقرر شعبٔہ اردو ،پٹنہ یونیورسٹی میں ہوا،جہاں ابھی وہ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسرتدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کے مضامین ملک و بیرون ملک کے موقر رسائل و جرائد میں شایع ہوتے رہے ہیں اور ادب کے سنجیدہ قارئین کے درمیان توجہ اور انہماک سے پڑھے جاتے رہے ہیں۔ان کی اب تک چھ کتابیں (۱)ضیائے اشرفیہ،۱۹۹۰ء(۲)اسلام کا معاشرتی نظام،۱۹۹۲ء(اردو کے نثری اسالیب،۱۹۹۹ء(۴)فرات،مطالعہ   ومحاسبہ،۲۰۰۴ء(۵)اردو ناول کے اسالیب،۲۰۰۶ء(۶)اور جہان فکشن،۲۰۰۸ء شایع ہو چکی ہیں۔ان میں اردو ناول کے اسالیب اور جہان فکشن کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ،بالخصوص اردو ناول کے اسالیب کو اترپردیش اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی سے اول انعامات سے او ر جہان فکشن کو بہار اردو اکادمی کے اول انعام سے نوازا گیا۔پروفیسر وہاب اشرفی نے ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں اول الذکر کتاب کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ ’’کم ازکم میری نگاہ سے ایسا تحقیقی اور تنقیدی کام نہیں گذرا۔یہ تحقیقی و تنقیدی اعتبار سے نئے جہات سے مملوہے‘‘۔ڈاکٹر اعظمی اردو کی قومی اور بین الاقوامی مجلسوں ،سیمیناروں اور جلسوں میں شرکت کرکے بھی اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔
    اردو فکشن اور اسلوب ڈاکٹر اعظمی کا خاص میدان ہے ۔ایسی صورت حال میں جبکہ اردو فکشن کی ۸۰ فیصد تنقید تشریح اور خلاصہ پر اکتفا کرتی ہے،ڈاکٹر اعظمی نے اس کے دامن کو وسیع کرنا چاہا ہے اور اردو فکشن کی اسلوبیات پر بہت ہی مدلل لیکن سہل بحث کی ہے۔گرچہ یہ ایک الجھی ہوئی بحث ہے لیکن اعظمی نے اپنی تحریروں  کے ذریعے اسے عام فہم اور دلچسپ بنا دیا ہے۔زیر نظر مضمون ’’اردو ناول کی اسلوبیات ‘ بھی ان کے مخصوص نقطئہ نظر کا حامل ہے،جس میں انہوں نے ناول کے لیے اسلوب کی اہمیت ،افادیت اور ناول کی تنقید میں اسلوبیاتی مطالعے کی معنویت پر روشنی ڈالی ہے۔مضمون نگار کے مطابق اسلوب دراصل مصنف کی شخصیت کا ہی عکس ہوتاہے۔جبکہ بعض مغربی مفکرین کے ذریعے اس بات پر اصرار ہے کہ ہر فن پارہ اپنا اسلوب خود لے کر آتاہے۔لیکن یہاں مضمون نگار کا موقف ہے کہ اسلوب مصنف کی شخصیت اور ماحول کا ہی آئینہ ہوتا ہے اور اصناف ادب میں فکشن (ناول)وہ واحد صنف ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام کیف و کم بالتفصیل ہمارے سامنے اجاگر ہوتے ہیں۔ناول کا کینوس چونکہ بڑا ہوتا ہے اس لیے ہر قدم پر ٹھہر کر فرد اور معاشرے کی نفسیات اورانداز و آہنگ کو سمجھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس ضمن میں زبان اور اسلوب کا استعمال حد درجہ اہمیت کا حامل ہو جاتاہے۔مضمون نگار کے مطابق ادب اور فن اگر وسیلہ اظہار ذات ہے تو اسلوب اس اظہار کی روح ہے۔اس لیے کہ اسلوب فن پارے کی قدروقیمت کے ساتھ فن کار کی مکمل شخصیت ،اس کی سائیکی ،اس کے عہد اور اس کے گردوپیش کا آئینہ ہوتا ہے۔مغربی مفکرین نے اسلوب کا دائرہ بڑھا کر متعدد فنون تک پھیلا دیاہے۔
    اردو میں شاعری کا اسلوب فکشن کے اسلوب سے علاحدہ ہوتاہے۔اس لیے اسلوب کی کوئی بھی ایسی تعریف و تشریح کلیتاً قابل قبول نہیں ہو سکتی جو عمومی نوعیت کی ہو۔ناول میں چونکہ جزئیات ،تفصیل اور صراحت کا عمل دخل ہو تا ہے اس لیے ایک طرف جہاں فرد اور معاشرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔وہیں دوسری طرف جامعیت اور اختصار کے فقدان کے سبب اسلوب کی واضح شناخت نہیں ابھر پاتی۔ڈاکٹر اعظمی نے ناول کے اس نقص کو نشان زد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری طوالت سے عبارت کا آہنگ اور موضوع متاثر ہو تاہے۔مختلف الجہات اور اشاریت سے بھر پور الفاظ کا استعمال عبارت کی کمانوں کو چست رکھتاہے اور سچویشن کو پر مغز اور بااثر بناتاہے۔اس سلسلے میں کئی مثالوں کے ذریعے مضمون نگار نے اپنے موقف کو ثابت کیاہے۔
    یہ مضمون مروجہ اسلوبیاتی مطالعوں سے قدرے مختلف اس لیے بھی ہے کہ اِس میں شہاب ظفر اعظمی نے ناول اور افسانہ جیسی اصناف کے اسلوبیاتی مطالعے کے طریقٔہ کار پر بحث کی ہے اور ادبی اسلوبیات کے دائرہ کار میں ناول کے دوسرے اجزا کو بھی شامل کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اُ ن کی دوسری تحریروں کی طرح یہ مضمون نہ صرف آپ کو پسند آئے گا بلکہ گفتگو کے نئے جہات بھی پیدا کرے گا۔

از۔ڈاکٹر نسیم احمد نسیم
  خدا بخش پبلک لائبریری ،اشوک راج پتھ،پٹنہ


 

1 comment:

 

Galib

Galib

Meer Taqi Meer

Meer Taqi Meer

Wali Dakni

Wali Dakni