Tuesday, 23 December 2014

میر امن دہلوی باغ وبہار کے آئینہ میں

باغ و بہار
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ بقول سید محمد ، ” میرامن نے باغ وبہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔“ بقول سید وقار عظیم: داستانوں میں جو قبول عام ”باغ و بہار “ کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔“
باغ و بہار فورٹ ولیم کا لج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لئے قائم کیا گیاتھا۔ میرامن نے باغ و بہار جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسینؔ کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کی۔ اور اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس اور آسان عبارت کا رواج ہوا جو اِسی داستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ آگے چل کر غالب کی نثر نے اس کمال تک پہنچا دیا۔ اس لئے تو مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔
اسلوب
داستانوں میں جو قبو ل عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے۔ وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا ۔ عوام اور خواص دونوں میں یہ داستان آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے پونے دو سو برس پہلے تھی۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اور دلنشین انداز بیان ہے۔ جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
”باغ و بہار کے مُصنّف میرامن دہلوی چونکہ فورٹ ولیم کالج سے متعلق تھے ، اس لئے اس کی تصانیف بھی کالج کے متعینہ مقاصد کے تحت لکھی گئیں اور ان میں وہ تقاضے بالخصوص پیشِ نظر رہے جن کی نشاندہی ڈاکٹر جان گل کرائسٹ نے کی تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے لئے جتنی کتابیں تالیف ہوئیں ان میں لکھنے والوں نے سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی کی کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہو اور بو ل چال کی زبان اور روزمرہ محاورہ کا خیال رکھا جائے ۔ چونکہ اس سے مقصود انگریز نوواردوں کو مقامی زبان و بیان اور تہذیب و معاشرت سے آشنا کرنا تھا۔ اس لئے فورٹ ولیم کالج کے لکھے گئے قصوں میں زبان و بیان پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ باغ وبہار کی مِن جملہ دوسری خوبیوں کے زبان و بیان کے لحاظ سے بھی فورٹ وِلیم کالج کی دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ باغ و بہار کی اس فوقیت کی پیش نظر کسی کا یہ قول بہت مشہور ہوا کہ میرامن کا اردو نثر میں وہی مرتبہ ہے جو میر کا غزل گوئی میں۔



دہلی کی زبان
باغ و بہار اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ میرامن دہلی کے رہنے والے ہیں اور اُن کی زبان ٹھیٹھ دہلی کی زبان ہے۔ میرامن صر ف دہلی کی زبا ن کو ہی مستند سمجھتے ہیں بلکہ اس کو انہوں نے ہزار رعنائیوں کے استعمال کیا ہے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں میرامن نے اپنے تیئں دلی کا روڑا لکھا ہے۔ اور پشتوں سے دلی میں رہائش کرنے اور دلی کے انقلاب کو دیکھنے کے ناطے خود کو زبان کا شناسا بتایا ہے۔ اور اپنی زبان کو دلی کی مستند بولی کہا ہے۔ اردو کی پرانی کتابوں میں کوئی کتاب زبان کی فصاحت اور سلاست کے لحاظ سے باغ و بہار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ زبان میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں الفاظ و محاورات اور فقرات و تراکیب میں مختلف النوع تغیرات آگئے ہیں اس وقت کی زبان اور آج کی زبا ن میں بڑا فرق ہے لیکن باغ و بہار اب بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے یہ اعجاز دلکش میر امّن کے طرزِ بیان اور اسلوبِ تحریر کا حصہ ہے۔ میرامن ہر کیفیت اور واردات کا نقشہ ایسی خوبی کے ساتھ کھینچتا ہے اور ایسے موزوں الفاظ استعمال کرتا ہے کہ کمال انشاءپرداز ی کی داد دینا پڑتی ہے۔ نہ بے جا طول ہے نہ فضول لفاظی ہے۔
سادہ زبان
میر امّن نے باغ و بہار میں نہایت سادہ اور دل کش اسلوب بیان اختیار کیا ہے عبارت کی سادگی اور روانی جہاں بجائے خود ایک طرح کا حسن و لطافت ہے اس میں اس اندیشہ کا امکان بھی کسی وقت نہیں ہوتا کہ یہ سادگی عبارت کو سپاٹ بنا دے اور سادگی کا یہ ہموار تسلسل پڑھنے والے کے لئے اکتاہٹ یا تھکاوٹ کا باعث بن جائے۔ میرامن کی سادگی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر کسی جگہ بھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا بوجھ نہیں ڈالتی بقول کلیم الدین احمد، ” باغ و بہار کی سادگی سپاٹ نہیں اس میں ناگوار نیرنگی نہیں یہاں سادگی و پرکاری بیک وقت جمع ہیں۔“
سادگی بیان میں ایک اور خطرہ یہ ہے کہ جس چیز کوسادگی سمجھا گیا ہے اس کا دامن کبھی کبھی عامیانہ پن کے کانٹوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ زبان کو سادگی کے دائرے میں رکھنے والے کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ اس کی سادگی پر عمومیت اور بعض صورتوں میں عامیانہ پن کاسایہ نہ پڑجائے۔ ہمارے سادہ نگاروں میں اکثر سے یہ لغزش ہو جاتی ہے۔ سید وقار عظیم ”ہماری داستان“ میں لکھتے ہیں، ” میرامن کے طرز بیان کی ایک خصوصیت ۔۔۔۔۔ یہ ہے کہ اُن کی سادگی ہمیشہ عمومیت اور ابتذال کے داغوں سے پاک رہی ہے اس سادگی کی ایک تہذیبی سطح ہے اور میرامن کبھی اس تہذیبی سطح سے نیچے نہیں اترتے۔
الفاظ کا بر محل استعمال
لفظ کو اس کے صحیح مفہو م میں موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کرنا اصل انشاءپر دازی ہے اور یہی میرامن کا فن ہے۔ ڈاکٹر ممتاز لکھتے ہیں، ” میرامن کے ہاں ہر ایک بیان نہایت کامیاب ہے اس کے پاس الفاظ کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے اور ہر پھر اس کے استعمال پر یہ قدرت کہ جو لفظ جہاں استعمال کر دیا وہ عبارت کا جزو ناگزیر بن گیا جو صنعت کسی موصو ف کے لئے استعمال کی وہ اس کا ایسا حصہ بن کر رہ گئی کہ گویا صرف اسی کے لئے وضع ہوئی تھی۔“
اعتدال کی روش
اردو زبان میں فارسی الفاظ و تراکیب تشبیہات اور استعارات کو بڑا دخل حاصل ہے۔ اس سے مفر نہیں فارسی زبان کے اثرات سے بچ کر اردو لکھنا بہت دشوار ہے ۔ لیکن میرامؔن نے اپنی تحریروں میں اعتدال کی روش کو اپنایا ہے۔ ۔ ان کی زبان کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عربی فارسی کے الفاظ کم اور ٹھیٹھ اردو کے الفاظ زیادہ ہیں میر امنؔ بدیسی لفظوں او ر چیزوں کی شان و شوکت سے مرغوب ہو کر اپنی مقامی رنگ کو نہیں بھول جاتے قدیم فارسی تشبیہوں کے اور استعاروں کے ساتھ ساتھ اپنے بے تکلف اور لطیف استعارات اور تشبیہات سے بھی انہیں محبت ہے۔ اس لئے انھوں نے بہت سے اشعار بر ج بھاشا کے نقل کئے ہیں۔ اور کچھ الفاظ ہریانی کے بھی استعمال کئے ہیں۔ مثلاً ، کبھو ، کدھو ، کسو ، گزرایاں وغیرہ ۔ مقامی الفاظ کے بے تکلف اور لطےف استعمال نے میرامن کے یہاں اخلاقیات کو ادب کا جزو بنا دیا ہے۔ وہ حکمت و دانش کی باتیں اور پندو نصیحت کی باتیں بھی اس خوبصورتی سے بیان کر جاتے ہیں کہ کانوں کی راہ سیدھی دل پر اثر کر جاتی ہیں۔ بقول سید وقار عظیم ” میرامن کو لفظوں کے صرف پر ۔۔۔۔قدرت ہے وہ آسان ہندوستانی لفظوں سے مرکبات بنا کر اور ہندوستانی کے معمولی الفاظ استعمال کرکے اپنی بات کا وزن اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔“
روزمرہ محاورہ
کامیاب روزمرہ اور محاورے کا استعمال عبارت کی رفعتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ میرامن نے اپنی زبان میں روزمرہ اور محاورے کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ بول چال کے انداز کو تحریری اور گرائمری زبان پر ہر جگہ ترجیح دی ہے۔ اگرچہ میرامن ایک فرمائش کی تعمیل میں اپنی عبارت کو محاوروں سے مزین کر رہے تھے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ان کی بامحاورہ زبان اچھی داستان گوئی کے فطری عمل کی تابع معلوم ہوتی ہے۔ کہانی کی صورت حال اور افرادِ قصہ کی کیفیت کے اظہار نے محاورہ اس طرح پھب کر آتا ہے کہ گویا متقضائے فطرت یہی تھا اسی وجہ سے باغ و بہار میں اکثر یہ کیفیت نظرآتی ہے۔ کہ محاورہ آپ ہی اپنی شرح بھی ہوتا ہے اور عبارت کو سمجھنے میں کسی وسیلہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بقول پرفیسر حمید احمد خان ” اردو نثر روزمرہ کی روانی اور ٹھیٹھ محاورے کے لطف سے پہلی مرتبہ باغ و بہار میں آشنا ہوئی۔“
اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ
میرا من ماہرزبان تھے انہوں نے اردو کو مالا مال کرنے کے لئے نہ صرف مقامی اور عوامی بول چال کے الفاظ کھپائے بلکہ کتنے ہی الفاظ اور محاورے تخلیق کر دیے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے باغ و بہار کے علاوہ اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتے اب اگر کوئی شخص ایک نیا لفظ یا ایک محاورہ وضع کردے اس کے لئے باعثِ فخر ہوگا۔ میر امنؔ نے تو اردگرد گراں قدر نئے الفاظ کا سرمایہ زبان کو عطا کیا ہے۔ ممکن ان میں بعض دلی کے محلوں میں بول چال میں رائج رہے ہوں لیکن بھر بھی میر امن کا یہ احسان تو ہے کہ انہوں ان الفاظ اور محاوروں کو ادب میں محفوظ کرکے ہم تک پہنچایا ہے۔
تفرقات
میرامن نے زبان کو موثر بنانے کے لئے قواعد زبان لفظوں کی ساخت اور جملوں کی ترتیب میں تفرقات سے گریز نہیں کیا ۔ و ہ کبھی کبھی لفظوں کی جمع کے استعمال میں بھی تفرقات کرتے ہیں۔ مثلاً امراءکی جگہ امرائوں ، سلاطین کی جگہ سلاطینوں وغیرہ ۔ میرامن کے ان تفرقات کے متعلق سید وقار عظیم لکھتے ہیں، ” وہ قواعد کے جس اصول سے انحراف کرتے ہیں اس سے عبارت کا آہنگ بھی درست ہو جاتا ہے۔ اور بدلی ہوئی صورت میں لفظ اپنے آس پاس کے لفظوں میں پوری طرح گھل مل جاتا ہے۔ “
میرامن کی عبارت میں متروکات بہت ہیں لیکن پھر بھی ان کی عبارت کی روانی اور اُس کا آہنگ گھٹنے کے بجائے بڑھتا ہے۔ اور س کا مجموعی تاثر ہمیشہ خوشگوار ہوتا ہے۔
تاثر و دلکشی
میرامن کو اس چیز کا بہت صحیح اندازہ ہے کہ کس موقع پر کون سی بات کس حد تک پھیلا کر اور کس حد تک مختصر کرکے بیان کی جائے کہ وہ تصویر کشی ، واقع نگاری ، کردار اور سیرت کی مصوری اور افسانوں میں دلچسپی کے مطالبات پورے کر سکے اور اس لئے جہاں اُن کی داستان میں ہمیں واقعات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایسے موقع بھی بے شمار ہیں کہ انھوں نے اپنی بات کو سمیٹ کر تھوڑے سے لفظوں میں بیان کردیا ہے۔ میرامن کہانی بناتے وقت یہ بات کبھی نہیں بھولتے کہ بات کتنے لفظوں میں کہنی چاہیے تاکہ بات کا تاثر اور دلکشی برقرار رہ سکے۔بقول سےد وقار عظیم ” میرامن کی عبارت میں ناظر یا سامع کو اپنے اندر جذب کر لینے کی جو خصوصیت ہے اس میں اور بہت سی چیزو ں کے ساتھ اس بات کو بھی اہمیت حاصل ہے کہ ہر بات اتنے ہی لفظوں میں کہی جاتی ہے جتنے اُسے موثر اور دل کش بنانے کے لئے ضروری ہے۔“
میرامن تصویروں کو متحرک اور زندہ تصویریں بناتے ہوئے اپنے قارئین کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہیں اس میں فکری گہرائیوں کی بجائے فوری پن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ہر آدمی اس سے لطف اٹھا سکے ۔ وہ اس مقصد کے پیش نظر ایسی سادہ تشبیہوں کا استعما ل کرتے ہیں کہ جو روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں اور اس کے باجود اپنے اندر بڑی ندرت رکھتی ہیں میرامن تشبیہوں کے علاوہ تمثیلوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ باغ و بہار چونکہ دہلی کی نمائندہ کتا ب ہے اور دہلی کی فطرت میں ایک ملال پایا جاتا ہے اس لئے باغ و بہار کی نثر میں نے بھی یہ رنگ قبول کیا ہے۔ کتاب کو کوئی بھی صفحہ پڑھنا شروع کردیجئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دل میں آہستہ آہستہ نشتر چھبو رہا ہے۔لیکن اس سے جو درد پیدا ہوتا ہے اس میں کچھ ایسی مٹھاس اور لذت ہوتی ہے کہ نہ اُسے بیان کرنے کو جی چاہتا ہے اور نہ اس کا بیان ممکن ہے بقول ڈاکٹر سہیل بخاری، ” باغ و بہار کی انشاءمیں ایسا سوز و گداز رچ گیا ہے جو پڑھنے والے کے کلیجے کو گرما دیتا ہے۔“
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو باغ و بہار ان چند کتابوں میں سے ہے۔ جن کی زبان اور طرز بیان ان کے نفس مضمون سے زیادہ اہم ہے یہ ایک ایسے اسلوب کی نمائندہ ہے جس کی کوئی تقلید نہ کر سکا۔ پھر بھی باغ و بہار کے باغ پر ہمیشہ بہار رہی ہے۔ اور رہے گی۔ باغ و بہار کی ان خصوصیات کے پیش نظر پروفیسر حمید احمد خان لکھتے ہیں، ” میرامن کی باغ و بہار پاکیزہ اور شفاف اردو کا ابلتا ہوا چشمہ ہے۔“
اور اس کی زبا ن کے مولوی عبدالحق بھی ہمیشہ گن گاتے رہے اور یہاں تک کہہ گئے کہ، ” میں جب اردو بولنے لگتا ہوں تو باغ و بہا ر پڑھتا ہوں۔“
معاشرت کی عکاسی
باغ و بہار کے مصنف میرامن دہلوی تہذیب سے وابستہ دہلی (دلی ) کے رہنے والے تھے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں انہوں نے اپنے تئیں ”دلی کا روڑا لکھا ہے۔ انہیں دہلی والا ہونے پر بڑا فخر ہے۔ اس لئے میرامن کی باغ و بہار میں دہلوی تہذیب معاشرت کی مرقعکشی اس خوبصورت اور دلکش پیرائے میں کی گئی ہے کہ اس کے آئینے میں اُس کا دور نمایاں طور پر نظرآتا ہے۔ اس میں اس عہد کی دلی کے اشخاص اور افراد کی چلتی پھرتی اور بولتی چالتی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔بقول ڈاکٹر سید عبداللہ، ”باغ و بہار میں دلی کی تہذیب بول رہی ہے اس کی تصویر یں گردش کر رہی ہیں۔۔۔۔گویا یہ ایک زندگی کا نقشہ ہے۔“
میرامن کا عہد محمد شاہی روشوں کا عہد تھا۔ دلی کی معاشرت خوشحال ، خوش پوش اور خوش وقت معاشرت تھی۔ تکلف و اہتمام اور آرائش و زیبائش اس معاشرے کے تہذیبی امتیاز میں شامل تھی۔ مہان داریوں اور تقاریب کی اس تہذیب میں ایک خاص وقعت و اہمیت تھی۔ شاہی محلات اور درباروں میں بزم آرائیوں کے تذکر ے رہتے تھے۔
محفلیں جمتیں اور محفلیں سجتیں یہ سب چیزیں ثروت و دولت مندی کی پیداوار ہوا کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس زمانے میں ان چیزوں کی کثرت وافر تھی۔ شاہی درباروں اور نوابوں کی حویلیوں میں کئی قسم کی اشیاءموجود تھیں اور کسی شے کی کمی نہ تھی۔باغ و بہار سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو، ” ایک دلان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگو ا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کو روبرو بکاولی سے ایک تورے کا تورہ چن دیا۔ چار مشقاب ، ایک میں یخنی پلائو، دوسرے میں قورمہ پلائو، تیسرے میں متجن پلائو، اور چوتھے میں کوکو پلائو اور ایک تاب زردے کی اور کئی طرح کے قلیے دوپیازہ ، نرگسی ، بادامی ، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی۔“
دلی کی تہذیبی زندگی کے تمام لوازمات اپنی جزئیات و تفصیلات کے ساتھ میرامن نے موثر انداز میں پیش کئے ہیں۔ دلی کی ضیافتیں ، محفلیں اپنے تمام تر ساز و سامان اور آرائش و زیبائش کے ساتھ باغ و بہار کے صفحات میں قدم قدم پر چلتی ہیں۔ مردانہ ، زنانہ ، لباسوں کی تفصیل ، رہن سہن کے طور طریقے موسموں اور میلوں کی تفصیلات ، بزم نشاط اور محفل راگ رنگ کے نقشے سازو سامان و آواز کی جزئیات اور کئی دیگر رسم و رواج ہیں جو دلی کی تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت کی خوبصورت اور صاف نقش گری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان چند اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ،
” معاشر ت کی مرقع نگاری باغ و بہار کا طر ہ امتیاز ہے۔ ۔۔۔۔میرامن نے جس شے کا ذکر کیا ہے تفصیل کے انبار لگا دئیے ہیں۔ انہوں نے شعور ی طور پر اپنی تصنیف میں دلی کی معاشرت کے نقوش کو جا بجا محفوظ کر لیا ہے۔
باغ و بہار میں دلی کی معاشرت کی بڑی بھرپور تصویریں ملتی ہیں ۔ قصوں کی منظر فارس و عجم اور ملک فرہنگ کے ہیں لیکن ان کی معاشرت دلی کے مغل دربا ر کی ہے۔بقول مولوی عبدالحق، ” میرامن قصہ روم و شام چین و ایران لکھتے ہیں لیکن جب موقع آتا ہے تو ہمارے مرثیہ گو شاعروں کی طرح آداب و رسوم اپنے ہی دیس کے بیان کرتے ہیں۔“ باغ و بہار نہ صرف دلی کی معاشر ت کی آئینہ دار ہے بلکہ اس میں دہلوی ذہن بھی اجاگر نظرآتا ہے باغ و بہار کے محاورے دلی والوں کے ذہنی میلانات کے کامیاب عکاس ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے مضمون ”باغ و بہار کی زندہ نثر“ میں رقمطراز ہیں، ” باغ وبہار ایک تہذیب کی آواز ہے یہ اس زمانے کے ذہنی رجحانات کی آئےنہ دار بھی ہے زمانے کے یہ رجحانات باغ و بہار کے محاورات میں اپنا عکس دکھا رہے ہیں۔“ معنوی طور پر میرامن کی داستان نویسی نے اردو ادب میں بعض قابل ذکر اضافے کئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں واقعیت نگاری کا وہ عنصر ہے جس سے باغ وبہار کی عبارت بھری پڑی ہے۔ جزئیات سے میرامن کو ایک سچے فنکار کی طر ح محبت ہے۔ وہ جزئیات کی مد د سے اپنی تصویروں میں زندگی کا رنگ بھرتے ہیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ قصہ چہار درویش ہماری قومی معاشرت کے دور ِ آخر کا جیتا جاگتا مرقع بن گیا ہے۔ یہاں شاہ و گدا، امیر و وزیراورسوداگر اصل بازار میں ہمارے ہزار سالہ معاشرتی پس منظر کے سامنے اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔
باغ و بہار کے یوں تو ایک ایک لفظ میں دہلویت جلوہ افروز نظر آتی ہے لیکن بعض گوشے ایسے ہیں جہاں یہ رنگ بہت واضح نظرآتا ہے۔ خصوصاً پہلے درویش کے قصے میں دہلویت کا رنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ باغ و بہار تہذیبی اور تاریخی نقطہ نظر سے بڑی اہم اور دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے صفحات پر پھیلا ہوا رنگ ِ معاشرت محض تخیل کی نادرہ کاری نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت کی خوش بیانی ہے۔ بقول ممتاز حسین، ” قوت متخیلہ حقیقت پر ایک رنگین فانوس چڑھاتی ہے نہ کہ کوئی شے عدم محض سے وجود میں لاتی ہے۔“
باغ و بہار کے خوبصورت محل رنگین محفلیں عظیم الشان دعوتیں رنگ برنگے مختلف قسم کے کھانے ، طرح طرح کے لباس وغےرہ خواہ تخیل کے رنگین فانوس چڑھے ہوئے ہوں لیکن وہ صاف بتاتے ہیں کہ اُن کاتعلق ہندوستان کی تہذیب اور معاشرت سے ہے۔
میرامن نے باغ و بہار میں جن بزم آرائیوں کی تصویر کشی کی ہے۔ ان میں اُس دور کی گہماگہمی اور ہماہمی کے علاو ہ شرفائے دہلی کے اخلاق و کردار کے مرتبے بھی پیش کئے ہیں۔ گفتگو میں شریفانہ لب و لہجہ ، حفظ مراتب نکتہ آفرینی اور رکھ رکھائو یہ سب اس عہد کی دلی کے وہ نقوش ہیں جو باغ و بہار میں نمایاں طور پر نظرآتے ہیں باغ و بہار میں جہاں ہمیں اس زمانے کی دہلوی تہذیب کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔ وہاں ہمیں اس دور کے عقائد و میلانات ، افکار ، توہمات کے ساتھ ساتھ ذہنی رجحانات و جذباتی کیفیات کے نقوش بھی آشکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ” باغ و بہار اردو نثر کی پہلی زندہ کتاب ہے۔ کیونکہ اس میں مصنف کی ذات اور اُس کے زمانے کا عکس واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔“
باغ و بہار کا مطالعہ تہذیبی اور تاریخی نقطہ نظر سے بھی بڑی اہمیت و دلچسپی کا حامل ہے۔ ظاہر ہے اس کتاب کے مصنف میرامن کا خاندان پشتوں سے مغلیہ دربار سے وابستہ آرہا تھا۔ جس لئے وہ شاہی خاندان ، امراءوزراءاور وہاں کی عام زندگی سے بھی پوری طرح آگاہی رکھتاتھا۔ اور مجلسی زندگی اور سماجی تقریبوں سے بھی اسے مکمل طور پر واقفیت حاصل تھی۔ باغ و بہار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں میرامن نے صرف اونچے اور اعلیٰ طبقے کی زندگی کی ہی عکاسی نہیں کی بلکہ اس دور کے عام انسانوں کے کرداروں اور اجتماعی رویوں کی جھلک بھی موجود ہے۔ یعنی باغ و بہار محض میرامن کی ہی نادرہ کاری کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں حقیقت و واقعیت کی خوش بیانی بھی پائی جاتی ہے۔
باغ وبہار، محمد شاہ رنگیلے کے جانشین فرمانرئوں کے اس معاشرے کا عکس ہے کہ جس میں آل تیمور غرق مئے ناب ہو چکی تھی۔ اور امرائو زادیاں بھی مردوں کی طرح حمام میں نہانے جاتی تھیں۔ یہ کوئی فرضی داستان نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ کہ مغل فرمانروا خود اپنی ایک محبوبہ کے ساتھ حمام میں نہانے گیا اور دونوں ایک ہی جگہ نہائےکیونکہ اس کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی۔ اور مشہور تھا کہ اس حمام میں ایک ساتھ ننگے نہانے سے اولاد نرینہ ہوتی ہے۔ اس قسم کے معاشرے کی بھرپور جھلک باغ و بہار میں دیکھنے کو ملتی ہے جو حقیقت و واقعیت پر مبنی ہے۔
یوں تو با غ و بہار ایک داستا ن ہے اس کی حیثیت اردو کے افسانوی ادب میں ایک سنگ میل کی سی ہے۔ اور اسے زبان و ادب کے ایک شاہکار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ اپنے زمانے کی اجتماعی زندگی کی ایک مکمل دستاویز ہے۔ یہ اپنے عہد کے معاشرے اور تہذیبی احوال و آثار و واقعات و کوائف کا مستند تاریخی ریکاڈ ہے۔ بقول عبدالحق "مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرامن دہلوی نے اگرچہ باغ و بہار کو ایک داستان کے طور پر پیش کیا ہے۔ جس میں بہت سا حصہ فرضی کرداروں پر مشتمل ہے۔ لیکن اس پوری داستان میں وہ دہلی شہر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔جو خود میرامن کے دل میں موجو دتھا۔
اس قصے کا تمام تر ماحول بھی دلی کا ہے اگر میرامن غیر ممالک کا بیان بھی کرتے ہیں توو ہاں کی تصویر کشی اس انداز سے ہوتی ہے گویا دلی کے کسی محلے کا بیان ہو رہا ہو قصے کے تمام کردار بھی دہلوی دکھائی دیتے ہیں اور یوں اس پوری داستان میں ہمیں جگہ جگہ دلی کی معاشرت کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔بقول گارساں دتاسی ” باغ و بہار کے ہر صفحے ہر ایک وہی خصوصیات ملیں گی جو ہمیں اصل ہندوستانی اور خاص کر اسلامی ہندوستانی کو سمجھنے میں بہت کارآمد ہوگی۔“
کردار نگاری
باغ و بہار کے کرداروں پر نظر ڈالی جائے تو یہاں ہمیں دو قسم کے کردار ملتے ہیں۔ مرد کردار اور نسوانی کردار ، بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ مردانہ کرداروں کی کردار نگاری کرتے وقت میر امن کسی فنکارانہ چابکدستی کا مظاہر ہ نہیں کر سکے۔ سب سے پہلے ہم داستان کے مرد کرداروں کا جائزہ لیں گے۔ جن میں چاروں دریشوں کے علاوہ آزاد بخت ، اورخواجہ سگ پرست بھی شامل ہیں۔ چاروں رویش جو کہ کہانی کے ہیرو ہیں اُن کے بارے گیان چند لکھتے ہیں، ” ان میں شہزادگی کی کوئی علامت نظرنہیں آتی ۔ ان کے عشق میں کوئی عظمت ، کوئی بلندی اوروقار نہیں۔۔۔۔۔“
پہلا درویش
یمن کے ملک التجار کا بیٹا تھا۔چودہ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ اور پھر اپنی نادانیو ں کی وجہ سے اپنی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کے دل سے احساس خودی اور اعتماد عمل جاتا رہتا ہے۔ اپنی بہن کے ٹکڑوں پر پلتا ہے غیرت دلانے پر دمشق روانہ ہوتا ہے وہاں زخمی شہزادی اُسے ملتی ہے جس کا علاج وہ بڑی محنت سے کرتا ہے اور اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے لیکن شہزادی اس کی پرواہ نہیں کرتی۔ مگر وہ خوشامد کرتا رہتا ہے۔ دراصل خوشامد اس کی عادت بن چکی ہے۔ اس کے عشق میں چھچھورا پن ہے۔ اس کے علاوہ درویش مستقل مزاجی کی صفت سے بھی محروم ہے اس لئے یوسف سوداگر سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے۔
مختصراً یہ کہ پہلے درویش کے کردار میں مردانگی نام کی چیز نہیں۔ یہ ایک مجہول اور بودا کردار ہے جو فرمانبرداری ، خوشامدی فطرت ، عجز و انکساری کے باوجود دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ منہ میں سونے کاچمچہ لے کر پیدا ہونے والا یہ تاجر زادہ کسی مرحلے پر بھی شخصی وقار ، انا پسندی یا خوداری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کوتاہ بینی ، کم کوش ، نکمے شخص کی شادی شہزادی سے ہو جانا ایک اتفاق ہے ۔ مگر جنگل میں اُسکو کھو دینا اس کی بے تدبیری اور ناعاقبت اندیشی اور بدنصیبی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔
دوسرا دویش
دوسرا دویش فارس کا شہزادہ ہے چودہ سال کی عمر میں حاتم طائی اس کا آئیڈیل بن جاتا ہے۔ اور وہ زندہ جاوید رہنے کے لئے حاتم طائی کی پیروی شروع کر دیتا ہے۔ شہزادہ مذہبی ذہن رکھتا ہے اور سخاوت اس کے نزدیک روحانی ترقی کا ذریعہ تھی۔ پھر جب ایک فقیر سے بصرے کی شہزادی کا ذکر سنتا ہے تو بصرے روانہ ہو جاتا ہے۔ اور جب شہزادی کو دیکھ لیتا ہے تو اسے اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ لیکن یہ شہزادہ دوسرے شہزادوں کے مقابلے میں اتنا خوشامدی نہیں۔ اور وہ شہزادی کی خطرناک شرط کو بھی فوراً قبو ل کر لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہادر ، عالی ہمت اور مہم جو ئی سے نہیں گھبراتا۔شہزادہ نیم روز کاراز معلوم کرنے کے بعد اس کے درد کا درماں ڈھونڈنے نکل پڑتاہے۔ بقول زہرا معین، ”غم جاناں سے غم ہائے دگر تک کا سفر یہ درویش کی آدمیت و انسانیت ، اس کے د ل کیگداختگی ایثار و قربانی بحیثیت مجموعی اس کے کردار کی بلندی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے کردار میں بڑی استقامت ہے ۔ و ہ اپنی دھن کا پکا ہے۔“
تیسرا دویش
ملک عجم کا شہزادہ ہے ۔ اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہے۔ عاشق زار ہے اور عشق کا زخم خوردہ ہے۔ دوسرے درویشوں کی طرح یہ بھی خوشامدی ہے۔ کہیں کہیں جرات اور ذہانت کا مظاہر ہ بھی کرتا ہے۔ مگر عشق کے میدان میں کوئی معرکہ مارنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ اکیلا ہی جب ہرن کا پیچھا کرتا ہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ایک مہم جو اور نڈر اور پر اعتماد نوجوان ہے۔ اس کے علاوہ درویش سے جس طرح وہ فرنگ کی شہزادی کا حال معلوم کرتا ہے وہ درویش کی متجسّس طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔ شہزادی اور اور بہزاد خان جب ڈوبنے لگتے ہیں تو وہ انھیں کنارے پر کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔ اس لئے درویش عشق کے معاملے میں پھسڈی ہے۔ اس کی محبت میں کوئی وقار نہیں۔بقول زہر معین ”اس کا کردار کمزور ہے، بے جان اور ڈھیلا ہے ۔ ابتداءمیں وہ بڑ ا مہم جو ، متجسس او ر بے خطر نظر آتا ہے۔ مگر عشق کی مہم میں اس سے کم ہی کوئی ایسا کارنامہ سرزد ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اسے عاشقوں کے زمرے میں شامل کیا جائے۔“
ٍ چوتھا درویش
چین کے بادشاہ کا ولی عہد ہے۔ ناز سے پرورش پائی اور اچھی تربیت ہوئی۔ لیکن بیگمات اور خواصوں کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے عقل و شعور سے عاری ہے۔ اور بے باکی اور جوانمردی نام کی کوئی شے اس کے اند ر نہیں۔ بلکہ کم ظرفی اور بے وقوفی کے آثار نمایاں ہیں۔ عملی دنیا سے زیادہ خیالی دنیا کا باسی ہے۔مبارک نامی حبشی غلام پر اسے بے حد اعتبار ہے۔ ہر کڑ ے وقت اور مشکل مرحلے پر شہزادہ کسی جرات یا استقلال کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مبارک حبشی سے رجو ع کرتا ہے۔
شہزادہ شکی مزاج بھی ہے اور اپنے جاں نثار غلام پر بھی شک کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ شہزادے کی ناعاقبت اندیشی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ جب وہ ملک صادق جیسے طاقتور جن اور اپنے باپ کے مخلص دوست کے ساتھ جنگ آزما ہو کرشکست سے دوچار ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ چوتھے درویش کی نکیل مبارک حبشی کے ہاتھ میں ہے۔جو اسکاعقل کل ہے اور جو اس کا واحد سایہ اور سہارا ہے۔
ٍ بادشاہ آزاد بخت
آزاد بخت روم کی سلطنت کا تنہا وارث ہے۔ اسے دنیا کی ہر آسائش اور سہولت میسر ہے وہ نیک ہے ، عبادت گزار ہے اور سخی ہے ۔ان سب کےباوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا ہے۔ اور چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر وہ اقتدار واختیار سے لا تعلق ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے۔ اور اولاد کے لئے جب وہ کسی خانقاہ میں جاتا ہے تو وہاں اُس کی ملاقات درویشوں سے ہوتی ہے جو کہ باری باری ان کو اپنی کہانی سناتے ہیں۔
طبیعت میں عجلت پرست واقع ہوا ہے۔ اسے لئے بغیر جرم ثابت ہوئے اپنے وفادار وزیر کی موت کا حکم دیتا ہے۔ اور بوڑھے سگ پرست سے کم سن شہزاد ی کی شادی کروانا اگر ایک طرف رحمدلی کا مظہر ہے تو دوسری طرف کم سن شہزادی کے ساتھ جبر و زیادتی کا بھی آئینہ دار ہے۔ آزاد بخت کی داستان میں دوسرے درویشوں کی طرح عشق کا عنصر شامل نہیں ہے۔ اس کی مہم جوئی کی جہت دوسرے درویش کے برعکس مختلف ہے۔ آزاد کا کردار مرکزی ہے اور بنیادی ہے اور قاری کی دلچسپی کا باعث اور زندگی کے زیادہ قریب اور بھر پور ہے ۔ بقول سہیل بخاری: ” باغ و بہار کا یہ کردار زندہ جاوید ہے۔“
خواجہ سگ پرست
یہ کردار بہت شریف اور بے وقوت ہے معلوم ہوتا ہے اس میں دنیا داری اور عقل بالکل نہیں ہے۔ اپنے بھائیوں سے دغا پر دغا کھاتا ہے۔ مگر پھر بھی انہیں اپنا خیرخواہ سمجھتا ہے۔ اس کے بھائی شیطان سیرت ہیں۔ اپنے بھائیوں سے دھوکہ کھانے کے باوجود بار بار نےکی کرنا اس کی نیکی و شرافت اور برداشت کی نشانی ہے۔ بھائیوں سے شدید محبت ہے لیکن جب وہ بدلہ لینے پر آتا ہے ایسی سزا دیتا ہے جو کسی نے نہ دیکھی اور نہ سنی۔ اس کے ساتھ ساتھ قصے کے چار درویشوں کی مانندخواجہ سگ پرست خوشامدی بھی ہے۔ اور زیر باد اور سراندیپ کی شہزادی کے سامنے جہاں تہاں خوشامد کرتا اور گڑگڑاتا ہے۔دوسرے درویشوں کی طرح جنس اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اس لئے بوڑھا ہونے کے باوجود کم سن شہزادی سے شادی کے لئے بے تاب ہے۔ لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود چاروں درویشوں سے یہ کردار مختلف اور منفرد ہے۔
نسوانی کردار
میرامن کے کرداروں کے ضمن میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ان کے مردانہ کرداروں کے مقابلہ میں نسوانی کردارزیادہ جان دار ہیں۔سید وقار عظیم میرامن کے نسوانی کرداروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ، ”کردارنگاری کے معاملہ میں میرامن نے جو توجہ ہر داستان میں ہیروئن پر صر ف کی ہے، اس سے مردوں کے کردا ر محروم رہے ہیں۔“
باغ و بہار کے نسوانی کرداروں میں ماہ رو ، وزیر زادی ، سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں میرامن نے ان کرداروں کو کیسے پیش کیا ہے۔
ماہ رو
ماہ رو پہلے درویش کے قصے کی ہیروئن ہے۔ جسے میرامن نے نہایت خوبصورت ، پری پیکر اور جاہ وحشم پر نازاں دکھایا ہے۔ احسا س برتری کے باعث اس میں ایک تمکنت اور رکھ رکھائو ہے۔ لیکن آخر وہ جذبہ عشق کے ہاتھوں مغلوب ہوجاتی ہے۔ تو اس میں قدرے نرمی اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے۔ جونہی وہ عشق میں ناکام ہوتی ہے۔ تو پھر سے بپھر ی ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔ اس کے مزاج میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ بیک وقت رحمدل بھی ہے اور قاہر بھی، عشق بھی کرتی ہے۔ اور بدنامی سے بھی خوفزدہ ہے، وہ دانشمند بھی ہے اورجذبہ دل کے ہاتھوں مغلوب بھی۔ وہ مذہب پر یقین بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر مذہبی احکام سے انحراف بھی کرتی ہے۔
وزیر زادی
”وزیر زادی“ خواجہ سگ پرست کے قصے کی ہیروئن ہے۔ یہ قصہ بادشاہ آزاد بخت کی زبانی بیان ہوا ہے۔ وزیر زادی کی شادی خواجہ سگ پرست سے اس وقت ہوتی ہے۔ جب اس کے گڑیا کھیلنے کے دن تھے اور خواجہ سگ پرست کی عمر پچاس سال تھی۔ لیکن وزیر زادی بادشاہ کا حکم بجا لاتے ہوئے شادی کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے مقابلہ میں ایک کمسن لڑکی ہے۔ جس کی شادی خواجہ سگ پرست سے کردی جاتی ہے اور وہ اس شادی کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرلیتی ہے اور اف تک نہیں کرتی ۔بقول عابدہ حسین، ”عورتوں میں وزیر زادی نے کم عمری میں قربانی اور محبت کی جو مثال پیش کر دی ، اس کا جواب نہیں ۔ خواجہ سگ پرست سے شادی کرنا بھی ، قربانی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
سراندیپ کی شہزادی
سراندیپ کی شہزادی ، خواجہ سگ پرست کے قصے کا کردار ہے۔ جسے میرامن نے خالص ہندوستانی مزاج کا حامل ، ہندو راجکماری کے روپ میں دکھایا ہے۔ وہ کھلے ماحول کی پروردہ ہے۔ جہاں پردہ کرنے کا رواج نہیں۔ وہ مردوں کی طرح آزادنہ جنگلوں میں گھومتی اور شکا ر کرتی پھرتی ہے۔ میرامن نے اس کا تذکرہ یوں کیاہے:
”وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت خوبصورت ،صاحب جمال ، اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب نہ تھی، اس لئے وہ لڑکی تمام دن ہمجولیوں کے ساتھ سیر و شکار کرتی پھرتی۔“
بصرے کی شہزادی
بصرے کی شہزادی ، دوسرے درویش (شہزادہ فارس) کی محبوبہ ہے۔ جو آخر میں اس کی بیوی بن جاتی ہے ۔ شہزادی کی چھ بہنیں تھیں۔ ایک روز بادشاہ نے انہیں کہا کہ خدا کا شکر کرو کہ تم شہزادیاں ہو۔ اگر میں بادشاہ نہ ہوتا تو تم بھی شہزادیاں نہ ہوتیں ۔ یہ سارا کرو فر میر ے ہی طفیل ہے۔ ان میں سے ایک (زیر تذکرہ ) شہزادی ، جو مذہب پر پورا یقین رکھتی ہے۔ اس بات کی قائل تھی کہ جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے تابع ہوتا ہے۔ اس نے اپنے باپ(بادشاہ ) کے اس بات کو مسترد کردیا ۔ اور سب کچھ تقدیر اور اللہ کی دین قرار دیا۔ جس کے جواب میں شہزادی کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔ جہاں وہ صبر و شکر کرتی ، مصروف عبادت رہتی ۔ اس نے ایک دن مر د بزرگ کی جھونپڑی بنانے کے لئے زمین کھودنے کو کہا تو خدا کی قدرت سے ایک مدفون خزانہ مل گیا۔ جس سے اُس نے اےک محل تعمیر کروایا ۔ باپ کو معلوم ہوا تو اُس نے توبہ کیا۔باپ کے بعد یہی شہزادی جانشین ہوئی۔میرامن نے اسے نہایت سخی، مہان نواز ، سلیقہ شعار ، ہوشیار ، چالاک ، معاملہ فہم ، پرتمکنت اور باوقار دکھایا ہے۔ اسی شہزادی کی سخاوت کا شہرہ سن کر پہلا درویش اس کی زیارت کے لئے آیا اور اس کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگیا۔
پہلے درویش کی بہن
میرامن نے اس کردار میں مکمل طور پر ایک مکمل ہندوستانی عورت کی عکاسی کی ہے جو کہ اپنے بھائی کی محبت سے سرشار ہے۔ اور اُس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے۔ اور جب پہلا درویش سب کچھ لٹا کر اپنی بہن کے پاس آتا ہے تو وہ خوشدلی سے اُس کا استقبال کرتی ہے۔ اور اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔ اور بعد میں اُس کی بہن اُس کو غیریت بھی دلاتی ہے اور اُسے عمل کی طرف مائل کرتی ہے۔ کہ وہ کب تک ایسے ہی بہن کے ٹکڑوں پر پڑ ا رہے گا ۔ اُسے کچھ کرنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کردار ایک ہندوستانی ”بہن “ کی ایک مکمل اور خوبصورت تصویر ہے۔
کٹنی کا کردار
ضمنی کردار ہونے کے باوجود میرامن نے کٹنی کے کردار میں کمال کر دکھایا ہے۔ اور ہمارے سامنے ”بی جمالو“ قسم کی تصویر آنکھوں میں آجاتی ہے۔ اس کردار کی تصویر کشی کرنے میں میرامن نے نہایت چابکدستی سے کام لیا ہے۔ کٹنی کی زبان پر غور کیجئے ، یہ وہی دلی والی عورتوں کی زبان ہے۔
فقیرنیاں لوگوں کے دل میں کس طرح اپنے لئے ہمدردی پیدا کرتی ہیں۔ اور کیا کیا دعائیں دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیے:
"ایک بڑھیا، شیطان کی خالہ ( اس کا خدا کرے منہ کالا) ہاتھ میں تسبیح لٹکائے ، برقع اوڑھے ، دروازہ کھلا پا کر بے دھڑک چلی آئی او رسامنے کھڑے ہو کر ، ہاتھ اٹھا کر دعا دینے لگی، کہ اہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کمائو کی پگڑی رہے۔"
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو میرامن کے نسوانی کردار زیادہ بہتر اور خوبصورت ہیں۔ انھوں نے خوشی اور غم کے موقع پر عورتوں کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ کہ وہ کیسے دعائیں دیتی ہیں اور کیسے غصہ کا اظہار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے عورتوں کی مکالمہ نگاری پر بھی خوب توجہ دی ہے۔ اس لئے مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کے مکالمے زیادہ کامیاب ہیں۔ میر امن نے خالص ہندوستانی لہجہ میں بہت جاندار مکالمے لکھے ہیں۔
میر امن
میرامن کا اصل نام میر محمد امان اور تخلص امن تھا۔ آپ نے باقاعدہ شاعری کبھی نہیں کی۔ خود لکھتے ہیں۔نہ شاعر ہوں میں اور نہ شاعر کا بھائی
میرامن کے بزرگ ہمایون کے عہد میں مغلیہ دربار سے وابستہ ہوئے ۔ آپ دہلی میں پیداہوئے اوریہیں پروان چڑھے ۔ مغلوں کے دور آخر میں جب ولی کو احمد شاہ ابدالی نے تاراج کیا اور سورج مل جاٹ نے لوٹا تو میرامن دلی کو خیر آباد کہہ کر عظیم آباد پہنچے۔ وہاں سے کلکتہ گئے کچھ دن بیکاری میں گزرے ۔ بالاخر میر بہادر علی حسینی نے ان کا تعارف فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کے سربراہ ڈاکٹر گل کرائسٹ سے کرایا۔ انہوں نے میر امن کو کالج میں ملازم رکھا لیا۔ اور قصہ چہار درویش (فارسی) سلیس نثر میں لکھنے پر مامور کیا۔ چنانچہ ان کی فرمائش پر 1801ء میں باغ و بہار لکھنی شروع کی۔ 1802 میں مکمل ہوئی اور 1803ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ میر امن کی دوسری کتاب گنج خوبی ہے جو ملا حسین واعظ کاشفی کی (اخلاق محسنی) کا ترجمہ ہے۔
میر امن کی زندگی کے حالات کسی کتاب یا تذکرہ میں نہیں ملتے لہذا ان کی ولادت اور وفات کے بارے میں کسی کو صحت کے ساتھ معلوم نہیں۔
فورٹ ولیم کالج
فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا ۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
اس کالج کا پس منظر یہ ہے 1798 میں جب لارڈ ولزلی ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا تو یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین کمپنی کے مختلف شعبوں میں کا م کرنے یہاں آتے ہیں وہ کسی منظم اور باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے ۔ لارڈ ولزلی کے نزدیک ان ملازمین کی تربیت کے دو پہلو تھے ایک ان نوجوان ملازمین کی علمی قابلیت میں اضافہ کرنا اور دوسرا ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں ان کی زبان اور اطوار طریقوں سے واقفیت دلانا ۔
پہلے زبان سیکھنے کے لئے افسروں کو الاونس دیا جاتا تھا لیکن اُس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ اس لئے جب لارڈ ولزلی گورنر جنرل بن کر آئے تو اُنھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو اگر یہاں حکومت کرنی ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں اور ماحول سے آگاہی کے لئے تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام کیاجائے۔ ان وجوہات کی بناءپر ولزلی نے کمپنی کے سامنے ایک کالج کی تجویز پیش کی ۔ کمپنی کے کئی عہداروں اور پادرویوں نے اس کی حمایت کی۔
اور اس طرح جان گلکرسٹ جو کہ ہندوستانی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ کمپنی کے ملازمین کو روزانہ درس دینے کے لئے تیار ہو گئے۔اور لارڈ ولزلی نے یہ حکم جاری کیا کہ آئندہ کسی سول انگریز ملازم کو اس وقت تک بنگال ، اڑیسہ اور بنارس میں اہم عہدوں پر مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک وہ قوانین و ضوابط کا اور مقامی زبان کا امتحان نہ پاس کر لے۔ اس فیصلے کے بعد گلکرسٹ کی سربراہی میں ایک جنوری 1799 میں ایک مدرسہOriental Seminaryقائم کیا گیا۔ جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ کچھ مسائل کی وجہ سے اس مدرسے سے بھی نتائج برآمد نہ ہوئے جن کی توقع تھی ۔ جس کے بعد لارڈ ولزلی نے کالج کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔
کالج کا قیام:۔
لارڈ ولزلی نے کمپنی کے اعلیٰ حکام سے منظوری حاصل کرکے 10 جولائی 1800 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کا اعلان کیا۔ لیکن اس شر ط کے ساتھ کہ کالج کا یوم تاسیس 23 مئی 1800 تصور کیا جائے کیونکہ یہ دن سلطان ٹیپو شہید کے دارالحکومت سرنگا پٹم کے سقوط کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔ جب کہ کالج میں باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ 23 نومبر 1800 ءکو یعنی کالج کے قیام کے اعلان کے کوئی 6 ماہ بعد شروع ہوا۔کالج کے قواعد و ضوابط بنائے گئے ۔ اس کے علاوہ گورنر کو کالج کا سرپرست قرار دیا گیا۔ کالج کا سب سے بڑا افسر پروسٹ کہلاتا تھا۔ پروسٹ کا برطانوی کلیسا کا پادری ہونا لازمی قرار دیا گیا۔
نصاب تعلیم:۔
فورٹ ولیم کالج کے ریگلولیشن کے تحت کالج میں عربی، فارسی ہندوستانی ، سنسکرت ، مرہٹی اور کٹری زبانوں کے شعبے قائم کئے گئے۔ اس کے علاوہ اسلامی فقہ ، ہندو دھرم ، اخلاقیات ، اصول قانون ، برطانوی قانون، معاشیات، جغرافیہ ، ریاضی ، یورپ کی جدید زبانیں ، انگریزی ادبیات ، جدید و قدیم تاریخ ہندوستان دکن کی قدیم تاریخ ۔ طبیعیات ، کیمسٹری اور علوم نجوم وغیر ہ کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا تھا۔ کالج میں مشرقی زبانوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا ۔اس لئے السنہ شرقیہ کے شعبوں میں انگریز پادریوں کے علاوہ پروفیسروں کی مدد کے لئے شعبے میں منشی اور پنڈت بھی مقرر کئے گئے تھے۔ ہندوستانی زبان کے شعبے میں پہلے بارہ منشی مقرر ہوئے جسے بعد میں پڑھا کر 25 کر دیا گیا۔
فورٹ ولیم کالج کے مصنفین:۔
فورٹ ولیم کالج صرف ایک تعلیمی ادارہ نہ تھا بلکہ یہ کالج اس زمانے میں تصنیف و تالیف کا بھی بڑا مرکز تھا۔ اس کالج کے اساتذہ اور منشی صاحبان طلباءکو پڑھانے کے علاوہ کتابیں بھی لکھتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس کالج میں لغت ، تاریخ، اخلاقی ، مذہبی ، اور قصوں کہانیوں کی کتابیں بڑی تعدا د میں لکھی گئیں۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے منظور شدہ کتابوں پر انعام بھی دیا جاتا تھا۔ کالج کےقیام کے ابتدائی چار سالوں میں 23 کتابیں لکھی گئیں ۔ ذیل میں بعض مشہور اہم مصنفین اور ان کی تصانیف کا ذکر اختصار کے ساتھ در ج ہے۔
*گلکرسٹ *میرامن *سید حیدر بخش حیدری *میر شیر علی افسوس *میر بہادر علی حسینی *مظہر علی ولا *مرزا کاظم علی جوان
*خلیل خان اشک *نہال چند لاہوری *بینی نارائن جہاں
ان مصنفین کے علاوہ جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ کالج کے کچھ اور مصنفین بھی ہیں جن کے نام ذیل میں درج ہیں۔
مرزا جان طپش، میر عبداللہ مسکین، مرزا محمد فطرت، میر معین الدین فیض وغیر ہ
کالج کی خدمات:۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انگریزوں نے یہ کالج سیاسی مصلحتوں کے تحت قائم کیا تھا۔ تاکہ انگریز یہاں کی زبان سیکھ کر رسم و رواج سے واقف ہو کر اہل ہند پر مضبوطی سے حکومت کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فورٹ ولیم کالج شمالی ہند کا وہ پہلا ادبی اور تعلیمی ادارہ ہے جہاں اجتماعی حیثیت سے ایک واضح مقصد اور منظم ضابطہ کے تحت ایسا کام ہوا جس سے اردو زبان و ادب کی بڑ ی خدمت ہوئی۔
اس کالج کے ماتحت جو علمی و ادبی تخلیقات ہوئیں جہاں وہ ایک طرف علمی و ادبی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں تو دوسری طرف ان کی اہمیت و افادیت اس بناءپر بھی ہے کہ ان تخلیقات نے اردو زبان و ادب کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل میں بڑا حصہ لیا۔خصوصاً ان تخلیقات نے اردو نثر اور روش کو ایک نئی راہ پر ڈالا۔
فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل اردو زبان کا نثری ذخیرہ بہت محدودتھا۔ اردو نثر میں جو چند کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی زبان مشکل ، ثقیل اوربوجھل تھی۔ رشتہ معنی کی تلاش جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہ تھی۔ فارسی اثرات کے زیراثر اسلوب نگارش تکلف اور تصنع سے بھر پور تھا۔ ہر لکھنے والا اپنی قابلیت جتانے اور اپنے علم و فضل کے اظہار کے لئے موٹے موٹے اور مشکل الفاظ ڈھونڈ کر لاتا تھا۔ لیکن فورٹ کالج کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو نثر کو اس پر تکلف انداز تحریر کے خارزار سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی۔ سادگی ، روانی ، بول چال اور انداز ، معاشرے کی عکاسی وغیرہ اس کالج کے مصنفین کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔
فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ ترجمے کی اہمیت بھی واضح ہوئی ۔ منظم طور پر ترجموں کی مساعی سے اردو نثر میں ترجموں کی روایت کا آغاز ہوا اور انیسویں اور بیسویں صدی میں اردو نثر میں ترجمہ کرنے کی جتنی تحریکیں شروع ہوئیں ان کے پس پردہ فورٹ ولیم کا اثر کار فرما رہا۔ فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے کام میں موضوع کی افادیت اور اہمیت کے علاوہ اسلوب بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہ محسوس کیا گیا جس قدر موضوع اہمیت کا حامل ہے اسی قدر اسلوب بیان ، اسلوب بیان کی سادگی، سلاست اور زبان کا اردو روزمرہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ تاکہ قاری بات کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مطالب کو سادہ ، آسان اور عام فہم زبان میں بیان کیاجائے ۔
فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کی مساعی کی بدولت اردو زبان بھی ایک بلند سطح پر پہنچی ۔ فورٹ ولیم کالج کی اردو تصانیف سے قبل اردو زبان یا تو پر تکلف داستان سرائی تک محدود تھی یا پھر اسے مذہبی اور اخلاقی تبلیغ کی زبان تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن فورٹ ولیم کالج میں لکھی جانے والی کتابوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان میں اتنی وسعت اور صلاحیت ہے کہ اس میں تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس ، داستان ، تذکرے ، غرضیکہ ہر موضوع اور مضمون کو آسانی سے بیان کے جا سکتا ہے۔

4 comments:

  1. بلاگ پسٹ بننے سے اب تمام طلبا و طالبات كو كم پریشانی هوگی

    ReplyDelete
  2. نسوانی کردار کے حوالہ جات

    ReplyDelete
  3. hawalajat please

    ReplyDelete

 

Galib

Galib

Meer Taqi Meer

Meer Taqi Meer

Wali Dakni

Wali Dakni