Thursday, 15 January 2015

حمد باری تعالی

شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے ہردلعزیز استاذ ڈاکٹر ایم عظیم اللہ (خدا انہیں لمبی عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے) کی دو حمد آپ کی خدمت میں پیش ہے۔


اے مرے رب اے مرے پروردگار
ہم پکاریں گے تجھے ہی بار بار
نام تیرا ہی ہے رحمان ورحیم
کر کرم ہم پر خدایا بے شمار
تیرے بندے کیوں ذلیل وخوار ہیں
بخش دے مالک ہمیں پھر اقتدار
سر میں میرے ڈال دے ذوق جنوں
تیرے ہی آگے رہیں ہم اشکبار
میرا سر غیروں کے آگے کیوں جھکے
بھر دے اس میں بے نیازی کا خمار
تیرے نائب ہیں نیابت بخش دے
تیرے اس میداں کے ہم ہوں شہ سوار
اے خدا اے قادر مطلق عظیم
ہے عظیم اک تیری عظمت پر نثار

اللہ میرے میں ترا اک بندۂ حقیر

Monday, 12 January 2015

شعبہ میں تقریب سیرت النبی ﷺ کا انعقاد

 حضور اکرم ﷺ کی سیرت جتنی تفصیل اور جزئیات کے ساتھ لکھی گئی ہے میری تحقیق کے مطابق اس طرح کی تفصیل اور اتنی محنت سے دنیا میں کسی دوسری شخصیت کی سیرت نہیں لکھی گئی۔ اس خیال کا اظہار پروفیسر سید شاہ شمیم احمد منعمی نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے سیمینار ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ کم وبیش ایک لاکھ ایسے صحابی ہیں جو سیرت نبوی کے کسی نہ کسی پہلو اور کسی نہ کسی گوشے کے چشم دید گواہ اور راوی ہیں۔ ایسی سیرت کسی کی نہیں ملتی جس کے گواہ اس تعداد میں مل جائیں۔ پروفیسر منعمی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ موجودہ دور میں سیرت نبوی کی آفاقیت ، رسول عربی ﷺ کے کردار واعمال اور ان کی تعلیمات کو اپنے کردار وعمل کے ذریعہ پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسلام کی اشاعت اور فروغ کی اصل وجہ عملی نمونہ اور محمدی کردار ہی ہے۔ اسلام نہ تو تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور نہ ہی زور وزبردستی سے پروان چڑھا ہے۔ وہ صرف اور صرف محمد عربی ﷺ ، صحابہ کرام اور اولیا عظام کے کردار واعمال کے ذریعہ پھیلا ہے۔ واضح ہو کہ آج شعبہ اردو وعربی کے اشتراک سے ’’خطبہ بہ حیات طبیہ ﷺ‘‘ کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ جس میں سیرت رسول کے موضوع پر پروفیسر شمیم احمد منعمی نے اپنے پرمغز خطاب سے نوازا۔
تقریب کا آغاز کرتے ہوئے ناظم اجلاس ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے حاضرین کا خیر مقدم کیا اور شعبہ کی طالبہ نکہت پروین کی تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ شعبہ عربی کے استاد ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے اس تقریب کے موضوع اور غرض وغایت سے سامعین کو روشناس کرایا، جبکہ بارگاہ رسالت میں ہد یہ نعت پیش کرنے والوں میں فیض النسا، مشتاق نوری، شہکار رضا ، محمد اکبر اور شنکر کیموری نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر محمد عظیم اللہ کی تحریر کردہ حمد کو ناظم جلسہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پڑھ کر سنایا۔ اظہار تشکر کا فریضہ ڈاکٹر جاوید حیات نے ادا کیا۔
تقریب میں مولانا سید عبد الباری پرنسپل مدرسہ شمس الہدی پٹنہ، ڈاکٹر اسرائیل رضا، ڈاکٹر شاداب رضی، انور شمیم، ایم ٹی خان، فضل احمد، ڈاکٹر سعید عالم، محمد اصغر، محمد منہاج کے علاوہ بڑی تعداد میں عظیم آباد کے اہل علم اور طلبہ وطالبات شریک ہوئے۔

Sunday, 11 January 2015

سیمینار بہ حیات طبیہ


 
پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور عربی کی جانب سے ۱۲ جنوری بروز پیر کو بوقت ۱۱ بجے دن شعبہ اردو کے سیمینار ہال میں حیات طیبہ پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر شمیم منعمی شرکت کریں گے۔ نیز حیات طیبہ ﷺ کے موضوع پر ان کا خطاب بھی ہوگا۔ مہمان اعزازی کے طور پر شنکر کیموری (آل انڈیا ریڈیو) بھی موجود رہیں گے۔ اس موقع پر مشتاق نوری، شاہکار اکبر اور شنکر کیموری نعتیہ کلام بھی پیش کریں گے۔ تمام احباب سے شرکت کی گزارش ہے۔ 

Saturday, 10 January 2015

ڈاکٹر جاوید حیات ایک نظر میں

Dr Jawed Hayat

جاوید حیات
تاریخ پیدائش:                    ۱۱؍ مئی ۱۹۵۷
رہائش:                            نشیمن کالونی، کھجور بنہ، پٹنہ-۶
تعلیم:                              ایم اے، پی ایچ ڈی
تحقیق:                             اردو صحافت اور بہار میں اس کی ابتدا وارتقا
اختصاص:                           اردو فکشن اور تنقید
تدریسی خدمات:
1.      ایس بی آر کالج، باڑھ
2.      جوبلی کالج، بھرگنڈہ، ہزاری باغ
3.      بی این کالج، پٹنہ یونیورسٹی
4.      شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی

Dr. Shahab Zafar Azmi

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی بھارت میں اردو فکشن کی تنقید کا ایک سنجیدہ اور معتبر نام ہے۔ان کی پیدائش یکم اپریل ۱۹۷۲ء کو گیا (بہار) میں ایک عالم دین مولانا عبدالبر اعظمی کے گھر میں ہوئی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم والد گرامی سے ہی حاصل کی ،اس کے بعد مگدھ یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔جون ۲۰۰۳ء میں ان کا تقرر شعبٔہ اردو ،پٹنہ یونیورسٹی میں ہوا،جہاں ابھی وہ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسرتدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کے مضامین ملک و بیرون ملک کے موقر رسائل و جرائد میں شایع ہوتے رہے ہیں اور ادب کے سنجیدہ قارئین کے درمیان توجہ اور انہماک سے پڑھے جاتے رہے ہیں۔ان کی اب تک چھ کتابیں (۱)ضیائے اشرفیہ،۱۹۹۰ء(۲)اسلام کا معاشرتی نظام،۱۹۹۲ء(اردو کے نثری اسالیب،۱۹۹۹ء(۴)فرات،مطالعہ   ومحاسبہ،۲۰۰۴ء(۵)اردو ناول کے اسالیب،۲۰۰۶ء(۶)اور جہان فکشن،۲۰۰۸ء شایع ہو چکی ہیں۔ان میں اردو ناول کے اسالیب اور جہان فکشن کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ،بالخصوص اردو ناول کے اسالیب کو اترپردیش اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی سے اول انعامات سے او ر جہان فکشن کو بہار اردو اکادمی کے اول انعام سے نوازا گیا۔پروفیسر وہاب اشرفی نے ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں اول الذکر کتاب کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ ’’کم ازکم میری نگاہ سے ایسا تحقیقی اور تنقیدی کام نہیں گذرا۔یہ تحقیقی و تنقیدی اعتبار سے نئے جہات سے مملوہے‘‘۔ڈاکٹر اعظمی اردو کی قومی اور بین الاقوامی مجلسوں ،سیمیناروں اور جلسوں میں شرکت کرکے بھی اپنی شناخت قائم کر چکے ہیں۔

Tuesday, 6 January 2015

غبار خاطر

غبار خاطر
مپرس تاچہ نوشتہ است کلک قاصر ما
خط غبار من است ایں غبار خاطر ما
(میر عظمت بلگرامی)
”غبار خاطر“ مولانا آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ءتا 1945ءکے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے ۔جب وہ ۱۰ اگست ۱۹۴۲ سے لے کر ۱۵ جون ۱۹۴۵ تک قید وبند کی زندگی جھیل رہے تھے۔ ابتدا میں وہ احمد نگر کے قلعہ میں مقید رہے اور آخری ڈھائی مہینے احمد نگر قلعہ سے بانکوڑہ جیل میں منتقل کردیئے گئے۔ پہلا خط ۱۰ اگست ۱۹۴۲ کا ہے اور آخری خط ۱۶ ستمبر ۱۹۴۳ کا ہے۔ گرفتاری کے دوران کل بیس ۲۰ خط لکھے گئے۔ ایک خط گرفتاری سے پہلے اور تین خط گرفتاری کے بعد کے بھی شامل کرلئے گئے اس لئے غبار خاطر میں کل خطوط کی تعداد ۲۴ ہوئی۔  مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط و کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: ” جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ آ پ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لئے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔“
ایک گروہ ایسے بھا ہے جو غبار خاطر کو خطوط کی صف میں شمار نہیں کیا ہے۔ کسی نے اسے مضامین کا دفتر کہا ہے، کسی نے انشائیہ کا مجموعہ قرار دیا ہے، کسی نے خود کلامی سے تعبیر کیا ، کسی نے روزنامچہ کی خصوصیات اس میں تلاش کی ہے اور کسی نے اس میں خودنوشت کی خوبیاں پائیں۔ لیکن حقیقت میں یہ خطوط کا مجموعہ ہی ہے کیونکہ مصنف نے اسے خطوط کا مجموعہ ہی قرار دیا ہے اور خط ہی سمجھ کر انہیں اس وقت اپنے عزیر دوست حبیب الرحمٰن کو لکھے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ خط نمبر ۱۲ اور ۱۳ میں سوائے ابتدائی چند جملوں کے خط کی کیفیت نہیں پائی جاتی بلکہ مضمون کی فضا ملتی ہے۔ خط نمبر ۱۴ میں ’’صدیق مکرم‘‘ کے سوا باقی تمام  حصہ ’’صلیبی جنگ‘‘ سے متعلق ہے۔ خط نمبر ۱۷ کا بھی یہی حال ہے۔

ملا وجہی اور سب رس

ملا وجہی
(م۔ 1659) ملا وجہی نے اپنے مربی و سرپرست سلطان محمد قلی قطب شاہ کی طرح بہت سے تخلص استعمال کیے ہیں۔ اسکے بعض اشعار میں وجیہہ، وجمہا، وجہی اور وجمہی تخلص موجود ہیں۔ وجہی نے اپنے ایک فارسی شعر میں بتایا ہے کہ انکی پیدائش ہندوستان میں ہوئی لیکن اسکا آبائی وطن خراساں ہے۔ وجہی نے"قطب مشتری" میں دکن اور تلنگانہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ اسلیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دکن ہی انکا مقام پیدائش ہو۔ وہ غالباً ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ وجہی نے گولکنڈے کے چار حکمرانوں ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا عہد دیکھا تھا۔ انکی زندگی کا دور زریں محمد قلی قطب شاہ کا زمانہ حکومت تھا۔ وہ ملک الشعرا اور بادشاہ کا منظور نظر فنکار بن چکے تھے۔ وجہی نے شعر میں روح الامین کو اپنا استاد کہا ہے۔ ابراہیم قطب شاہ کے عہد میں روح الامین تخلص کا ایک فارسی شاعر بھی موجود تھا۔ لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ وجہی نے اس شعر میں خود کو فارسی شاعر روح الامین کا شاگرد کہا ہے یا روح الامین سے انکی مراد جبرائیل ہیں۔ محمد قطب شاہ کے دور حکومت میں وجہی نے زندگی گوشہ گمنامی میں گزاری۔ نہایت عسرت اور تنگدستی کے ساتھ زندگی بسر کی۔
وجہی نے مثنوی"قطب مشتری" میں دعوی کیا ہے کہ میں نے اپنے پیشتر و ہمعصر شعرا کے خلاف ایک طبع زاد قصہ نظم کیا ہے۔ اس مثنوی کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں وجہی نے"درشرح شعر گوید" کے عنوان سے شعروادب سے متعلق اپنے تنقیدی خیالات ظاہر کیے ہیں۔ قطب مشتری کے ہیرو کو شاعر نے محمد قلی قطب شاہ کے نام سے پکارا ہے۔ لیکن اس مثنوی کے قصے کا محمد قلی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وجہی سے ایک اور مثنوی"ماہ سیما و پری رخ" بھی منسوب کی جاتی ہے۔ گارساں دتاسی نے اپنے خطبات میں اسکا ذکر کیا ہے۔ "سب رس" کو ادبی نثر کا پہلا نمونہ کہا جاتا ہے۔ اپنے منفرد اسلوب میں وجہی نے اس قصے کو ایک تمثیلی و رمزیہ معنویت کا پیرایہ عطا کیا ہے۔ مقفیٰ و مسجع جملوں، اسلوب کی شیرینی وشگفتگی اور انشاپردازی نے سب رس کو ایک سدابہار تخلیق بنا دیا ہے۔ یہ کتاب تصوف کے مسائل پر ہے۔ وجہی کو اردو ادب کے عظیم ناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
 جناب مُلّا وجہیؔ دور اول کے اردو نثر نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو نثر کا آغاز اگرچہ ۷۵۸ ہجری سے ہو چکا تھا، تاہم اس دور میں صرف ایک تصنیف ’’معراج العاشقین’’ از حضرت گیسو دراز بتائی جاتی ہے۔ تاہم ’’سب رس’’ کو اردو کی پہلی مستقل تصنیف سمجھا گیا ہے، جو انھوں نے ۱۰۴۸ہجری مطابق ۱۶۳۸ عیسوی میں تصنیف کی۔ مُلّا وجہیؔ عبداللہ شاہ والئی گولگنڈہ کا درباری شاعر اور نثر نگار تھا۔ ’’قطب مشتری’’ ان کی مشہور مثنوی ہے جس میں انھوں نے سلطان قلی قطب شاہ کے عشق کو موضوع بنایا ہے۔
 

Galib

Galib

Meer Taqi Meer

Meer Taqi Meer

Wali Dakni

Wali Dakni